Inflation - افراط زر

{tocify} $title={Table of Contents}
ہر شخص پستی سے بلندی کی طرف جانے کی تمنا رکھتا ہے۔ وہ اپنی اس تمنا کو پایا تکمیل تک پہنچانے میں تمام جائز و نا جائز ذرائع بروئے کار لاتا ہے۔وہ شخص اپنی منزل پا لیتا ہے مگر پستی سے بلندی کی طرف جانے کی خواہش میں ذرا برابر کمی واقع نہیں ہوتی۔ تاہم یہ جذبہ سعودیت صرف انسانوں تک محدود نہیں، اقبالؒ کے شاہین سے لے کر، بیج سے اگنے والے چھوٹے سے پودے تک، ہر جاندار مجسم سے لے کر بے جان اشیاء تک، سبھی کا مقصدِ زندگی، زمین کی گہرائی سے نکل کر آسمان کی اونچائیوں کو چھونا ہے۔ یہ بھی کوئی اچبھے کی بات نہیں کہ مختلف ممالک کے کرنسی نوٹ بھی خود کو زندگی کی اس دوڑ میں دیگر مخلوق خدا وندی کے رو برو رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا دوسرے بھائی نوٹوں سے بلندی و پستی کا مقابلہ ہی کسی معاشرے کو افراطِ زر کے تحفے سے نوازتا ہے۔

افراط زر معاشیات کی ایک اصطلاح ہے اس کا سادو مفہوم مہنگائی ہے۔ مگر یہاں ایک یا دو اشیاء کی قیمت میں اضافے کو افراطِ زر کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ قومی و ملکی سطح پر اشیاء کی خریداری کے عوض اُن کی اوسط قیمت میں اضافے کا نام افراط زر ہے۔ افراط زر کو انگریزی میں Inflation کہا جاتا ہے۔ اکسفورڈ انگلش ڈکشنری میں معاشیات کے حوالے سے انفلیشن کی کچھ اس طرح تعریف کی گئی ہے:
A general increase in prices and fall in the purchasing value of money.
یعنی اشیاء کی قیمتوں میں عمومی اضافہ اور لوگوں کی قوتِ خرید میں کمی افراط زر کہلاتی ہے۔ [2][1]

افراط زر کی درج ذیل اقسام ہیں:

1. طلبی افراط زر: (Demand-push Inflation)
طلبی افراط زر میں سرمائے میں اس قدر اضافہ ہوتا ہے کہ مارکیٹ میں موجود اشیاء کی موجودگیت میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ اس قسم کی افراطِ زر کے پیچھے بڑی وجہ حکومت کا زیادہ تعداد میں نوٹ چھاپنا ہے۔ جس کے نتیجے میں افراد کے سرمائے میں اضافہ تو ہو جاتا ہے، مگر اُن افراد کی قوتِ خرید کی طلب پوری کرنے کے لیے مارکیٹ میں اشیاء کی فراہمی محدود ہو جاتی ہے، جس کے نتیجے میں اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔

2. لاگتی افراط زر: (Cost-push Inflation)
لاگتی افراطِ زر کا براہ راست تعلق معدنیاتی اور طاقتی وسائل کی قیمت میں اضافے سے ہے۔ خام مال کی قیمتوں میں اضافے سے اِن سے بننے والی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔ مثال کے طور پر پاکستان میں تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافے سے بجلی مہنگی ہوتی ہے۔ بجلی ہر شعبہ ہائے زندگی کو رواں دواں رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ اس لیے تمام ضروری اشیاہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ کیوں کہ اس اضافے کا بہت حد تک تعلق بجلی اور خام مال کی قیمتوں میں اضافے سے ہے۔

3. اُجرتی افراط زر: (Wage-push Inflation)
مہنگائی میں اضافے کا سب سے برا اثر مزدور طبقے پر پڑتا ہے۔ پاکستان میں لوگوں کی اکثریت غربت کی لکیر سے نیچے اپنے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ اعلیٰ تعلیم عام اور سستی نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں مزدوروں کی اکثریت ہے۔ چناں چہ مزدور طبقہ اپنی یونین کا سہارا لیتے ہوئے کارخانوں کے مالکان پر اپنی یومیہ اور ماہانی اُجرت میں اضافے کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں۔ اگر اُن کا احتجاج کامیاب رہتا ہے تو انھیں اپنی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لیے مناسب رقوم مل جاتی ہیں مگر کسی فیکٹری کے مالکان کو مزدوروں کی اضافی اجرت کی طلب کو پورا کرنے کے لیے اپنی مصنوعات کی قیمتوں کو بڑھانا پڑتا ہے۔ یہی اجرتی افراط زر کہلاتا ہے۔ جو طلبی اور لاگتی افراط زر کا مرکب ہے۔

4. درامدی افراط زر: (Imported Inflation)
درامدی افراط زر میں اضافے کی بنیادی وجہ دوسرے ممالک سے منگوائی جانے اشیاء کی مد میں ادا کئے جانے والے کسٹم ڈیوٹی ٹیکس میں اضافہ ہے۔ اس لیے اول الذکر اشیاء کی، مقامی مارکیٹ میں، قیمتوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اس کی عام مثال امریکہ ار چین کے درمیان تجاری جنگ ہے۔ [3]

11 جون 2019ء کو پیش کیے جانے والے بجٹ میں عام عوام، سرکاری اور کاروباری حضرات پر ٹیکسوں سے بھرپور بم گرا دیا گیا ہے اور ایف۔ بی۔ آر کو رواں سال، 5550 ارب روپے کا محصول عوام کی جیبوں سے نکلوانے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ چینی کے لیے سیلز ٹیکس چھ فی صد سے بڑھا کر سترو فیصد کیا گیا ہے۔ آئی۔ ایم۔ ایف۔ کے 750 ارب روپے ٹیکس وصولی کی وجہ سے افراط زر اور مہنگائی میں مزیداضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا ریا ہے۔ مئی 2019ء میں افراط زر کی شرح 9.11 فیصد تک پہنچ گئی ہے، اور مزید بڑھنے کا خطرہ لاحق ہے۔ 2018ء کے آغاز سے یو۔ ایس۔ ڈالر کی قیمت میں 110 پاکستانی روپے کی صورت میں اضافہ ہوا، جب کہ مئی 2019ء میں ڈالر کو برسات کے مکوڑوں کی طرح ایسے پر لگے کہ 145 پاکستانی روپوں کو عبور کر گیا۔ اس لیے درامدی افراطِ زر میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، جو مقامی مہنگائی کے بڑھنے میں مدد دے گا، کیوں کہ مقامی مصنوعات کی تیاری میں غیر ملکی درامدی مشینری اور طاقتی وسائل (درامدی تیل وغیرہ) استعمال کیے جاتے ہیں۔ [5][4]

سوال یہ ہے کہ پاکستان سے افراط زر کا خاتمہ ممکن ہے؟ اس سوال کا جواب دینا مشکل نہیں، ہم حکومتی ارکان کے غیر ضروری اخراجات اور افواجِ پاکستان کے ثقیل دفاعی بجٹ پر بہت تنقید کرتے ہیں، پر کیا کسی نے انفرادی فضول خرچی پر دھیان دیا ہے؟ شادی بیاہ اور رسمِ انتقال کے موقعوں پر طرح طرح کے کھانے اور جہیز جیسی لعنت، یونی ورسٹی پڑھنے والے طلبہ اور طالبات کے روز بروز نہ ختم ہونے والے فیشنی ٹھاٹ بھاٹ، آبادی میں بے جا اضافے سے اٹھنے والے تعلیمی و صحت سے متعلقہ اخراجات اور اسی طرح کی کئی دیگر مثالیں ہم سبھی کو پاکستان میں افراط زر میں اضافے کے جرم کا مرتکب بناتی ہیں۔ افراط زر کا خاتمہ نہ سہی، کمی ضرور ممکن ہے۔ تاہم اس میں کمی لانے کا کام صرف حکومت کا نہیں، ہمارا بھی ہے۔ ایک ماہر معاشیات قیصر بنگالی کے مطابق حکومتِ وقت اپنے غیر ضروری اخراجات میں کمی لا کر نئے نوٹ چھاپنے سے بچا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ درامدات میں ہونے والے خسارے میں کمی لانے سے ڈالر کی قیمت کو اعتدال میں لایا جا سکتا ہے۔ ہماری یہی ذمہ داری ہے کہ اپنے روز مرہ کے غیر ضروری اخراجات میں کمی لائیں اور صرف وہی اشیاء خریدیں، جن کی ہمیں اشد ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ بڑھتی آبادی پر خود سے قابو پا کر مستقبل کی نسلوں کو بڑھتے گھریلو اخراجات سے بچایا جا سکتا ہے۔ افراط زر میں اضافے پر قابو پایا جاسکتا ہے، ہم سبھی کو اعتدال کا دامن پکڑتے ہوئے، پستی سے بلندی کی جانب مارچ کرنا پڑے گا۔

حوالہ جات:
1. https://www.bbc.com/urdu/pakistan-47797269
2. https://www.lexico.com/en/definition/inflation
3. https://www.economicshelp.org/blog/2656/inflation/different-types-of-inflation/
4. https://www.bbc.com/urdu/live/pakistan-48594767
5. https://tradingeconomics.com/pakistan/inflation-cpi

Post a Comment

It's time to pen down your opinions!

Previous Post Next Post