{tocify} $title={Table of Contents}
نوٹ: یہ مقالہ تعلیمی مقاصد کے لیے تحریر کیا گیا ہے، کسی کے احساسات کو مجروح کرنا ہمارا مقصد نہیں۔
آج کل درسی کتب محض مادی وسائل کے حصول کے لیے استعمال ہو رہی ہیں۔ جذبہ تعلُم ملازمت کے حجابات میں خود کو اوڑھے ہوئے ہے۔ ندائے آزموش خامشی کے ریگستانوں میں گونجنے لگی ہے اور حوادث زمانہ کے طوفان اسے باہر نہیں نکلنے دیتے۔ اور روز گار نہ ملنے پر ہم اپنی ڈگریوں کو کوستے ہیں، حالاں کہ ملازمت کے حصول کے لیے ہنر مندی، شرط اول ہے۔ اس کے لیے صرف ڈگریوں اور اسناد کا سہارا لینا کوئی دانش مندی نہیں۔ پاکستان میں لوگ نظام تعلیم کو برا بھلا کہتے ہیں کہ نصاب تعلیم ناقص ہے، مقاصد تعلیم کے تقاضے پورے نہیں کیے جا رہے، انگریزی میڈیم کی بجائے اُردو میڈیم کو اساس تعلیم بنایا جائے وغیرہ وغیرہ۔ جو کسی حد تک درست ہے۔
ہمارے تعلیمی نظام کا پہلا المیہ تعلیمی بجٹ میں شرم ناک حد تک کمی اور کٹوتیاں کرنا ہے۔ حالیہ سال کے وِفاقی بجٹ میں تعلیمی اور خدمات کے شعبے کے لیے 77.262 بلین روپے مُختص کیے گئے ہیں۔ حالاں کہ پچھلے سال کے بجٹ میں ان شعبہ جات کے لیے 97.155 بلین روپے الاٹ کیے گئے تھے۔ یعنی تعلیمی بجٹ تقریباً 20 فیصد کی کٹوتی کی گئی ہے۔ حالاں کہ مجموعی طور پر بجٹ میں تیس فیصد اضافہ کیا گیا ہے، مگر تعلیمی بجٹ کو غیر ضروری سمجھ کر آئے روز نئی نئی کٹوتیوں کی صورت میں نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ ایک اور اندازے کے مطابق پاکستان میں قومی آمدنی کا صرف 2.6 فی صد تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے خرچ کیا جاتا ہے۔ یہ ان ممالک سے کافی کم ہے جو پاکستان کے مقابلے میں پسماندہ شمار کیے جاتے ہیں۔ نیپال، بھوٹان، افغانستان اور ہندستان بالترتیب اپنی قومی آمدنی کا 3.7 %، 7.4 %، 3.3 % اور 3.8 % حصہ تعلیمی سرگرمیوں کی ترقی پر خرچ کرتے ہیں۔ تعلیمی بجٹ میں کمی اور کٹوتیاں کرنے کے نظامِ تعلیم پر بڑے دور درس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس لیے ہمارا میعارِ تعلیم اپنے ہمسایہ مملک کی نسبت پست ہے، اور ہم مغربی ممالک کے تعلیمی نظام کا مقابلہ کرنے چلے ہیں۔
2017ء میں ہونے والی مردُم شماری کے مطابق پاکستان میں شرح خواندگی 58 فی صد ہے۔ جس میں مردوں کا حصہ ستر فیصد ہے اور عورتوں کا اڑتالیس فی صد۔ مگر شرغ خواندگی کی پاکستان میں علاقائی اور صوبائی تقسیم غیر مساوی ہے۔ پنجاب اور سندھ میں خواندگی کی شرح زیادہ جب کہ خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں پڑھنے لکھنے کی شرح نسبتاً کم ہے۔ پورے پاکستان میں صرف 65 فی صد نوجوان پڑھنے لکھنے کے قابل ہیں اور بقیہ پینتیس فیصد دستخط کرنے سے قاصر ہیں۔ اگر مختلف ممالک کی شرح خواندگیوں کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو جنوبی ایشیا میں پاکستان کم شرح خواندگی کے حوالے سے افغانستان (اڑتیس فی صد) کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ نیپال اور بھوٹان کی تقریباً پینسٹھ فی صد، بھارت کی ستر فی صد، سری لنکا کی بانوے فیصد اور مالدیپ میں ننانوے فی صد ہے۔
پاکستان میں شرح خواندگی کے اضافے میں جمود کی بہت سی وجوہات ہیں۔ الف اعلان کی 2014ء میں پیش کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق، اول جماعت سے لے کر ثانوی جماعتوں تک تعلیم حاصل کرنے کے لیے باسٹھ فی صد طلبہ اور طالبات سرکاری سکولوں کا رخ کرتے ہیں۔ بقیہ نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے میں عافیت سمجھتے ہیں۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ سرکاری سکولوں کے اساتذہ میں اتنی اہلیت ضرور ہوتی ہے کہ وہ طلبہ کو مناسب طریقے سے پڑھا سکیں۔ مگر ایک مشہور سرکاری سکول میں ایک کلاس میں اس قدر طلبہ ہوتے ہیں کہ ایک تجربہ کار معلم ساٹھ متعلمین کو ایک ساتھ پڑھانے سے قاصر رہتا ہے۔ نجی سکولوں میں اساتذہ کو پڑھانے کا کوئی تجربہ نہیں ہوتا اور طلبہ کی تعداد کم (مناسب) ہونے کے باوجود بھی وہ طلبہ کی تعلیمی ضروریات کو احسن طریقے سے پورا نہیں کر پاتے۔ اور ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں سرکاری نوکری کو غیر ضروری اہمیت دی جاتی ہے۔ اس لیے پڑھے لکھے افراد پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں طلبہ پر اپنے تجربات آزمانے کے بعد سرکاری سکولوں میں آ دھمکتے ہیں۔ مستقل ملازمت کی لالچ اور زیادہ تنخواہ اس "نقل مکانی" کی بنیادی وجوہات ہیں۔ تاہم سرکاری سکولوں میں فرنیچر، کھیل کے میدان اور بجلی کی سہولتیں، نجی تعلیمی اداروں کی نسبت کافی بہتر ہوتی ہیں۔ مگر ابھی تک بھی چھبیس فی صد سرکاری اور اٹھائیس فی صد نجی سکول حفاظتی دیواروں سے محروم ہیں۔ بعض اثر رسوخ رکھنے واے حضرات ایسی صورتِ حال کا فاعدہ اٹھاتے ہوئے تعلیمی درس گاہوں کو اصطبلوں میں بدل دیا ہے۔
پاکستان، بالخصوص پنجاب کے سرکاری سکولوں میں تعلیمی نصاب کی ماہیت اوسطاً درجے کی ہے۔ سائنس، ریاضی، اسلامیات، معاشرتی علوم، اردو اور انگریزی کی درسی کتب میں نئے اسباق کا اضافہ خوش آئیند ہے۔ مگر ان کتب کو پڑھانے والے اساتذہ اسباق کے آخر میں دی جانے والی تخلیقی سرگرمیاں طلبہ کو تفویض نہ کرنے سے طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کا ضیاع ہو رہا ہے۔ تاہم اس معاملے میں اساتذہ اور متعلمین دونوں قصور وار ہیں۔ معاشرے کے دونوں عناصر کو تعلیمی معاملات میں دل چسپی کا فقدان اس ضیاع کی بڑی وجہ ہے۔ ہمارے متعلمین کے والدین کبھی اس بات پر توجہ ہی نہیں دیتے کہ ان کا بچہ سکول، کالج اور یونی ورسٹی جا کر کیا کیا گُل کھلاتا ہے۔ بل کہ پاکستان کے سرکاری تعلیمی ادارے عموماً آوارہ طلبہ کی جنت تصور کیے جاتے ہیں۔ جو سادہ لوح طلبہ کے کردار اور تعلیم حاصل کرنے کی لگن کو ختم کر کے دم لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں نصابی کتب صرف پڑھی جاتی ہیں، ان پر عمل کیا جاتا ہے نہ انھیں سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے ہمارے طلبہ امتحان میں نمبر تو اچھے لے جاتے ہیں مگر زندگی کی عملی دوڑ دھوپ میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اور مڈل جماعت تک پڑھائی جانے والی کمپیوٹر کی کتب اب بہت پرانی ہو چکی ہیں۔ اب ونڈوز 10 تقریباً ہر کمپیوٹر میں نصب ہے جب کہ طلبہ کو 2008ء والی چیزیں (ونڈوز XP) سکھا کر انھیں آدھا ادھورا علم دیا جا رہا ہے۔ ہاں البتہ مائیکرو سوفٹ آفس 2007ء کی اہم اپلیکیشنز سے متعلق سکھانا ایک اچھا قدم ہے جو ایک طالب علم کو مقامی طور پر روز گار حاصل کرنے کے قابل بناتا ہے۔ بالکل اسی طرح انگریزی کی نئی کتب کے اسباق کے آخر میں دی جانے والی گرائمر, Oral Communication Skills اور سبق کے خاکے کی فلاسفی وغیرہ طلبہ کی انگریزی بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ مگر المیہ یہ ہے کہ ہمارے محترم اساتذہ صرف انگریزی سے اردو ترجمہ اور سبقی سوالات و جوابات پڑھانے پر ہی اکتفا کرتے ہیں اور ایسی ہم نصابی سرگرمیوں کو فضول گردانتے ہوئے نظر انداز کر دیتے ہیں۔
ایک اور نصابی المیہ یہ بھی ہے کہ اعلیٰ ثانوی جماعت میں پڑھنے والے طلبہ، خواہ وہ ایف۔ ایس۔ سی میں ہیں، ایف۔ اے۔ میں یا آئی۔ سی۔ ایس میں ہیں، کو 80s اور 70s والا نصاب پڑھایا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر اعلیٰ ثانوی سال دوم کی انگریزی میں پڑھایا جانے والا تعلیمی ناول گُڈ بائے، مسٹر چپس تقریباً 1975ء سے لے کر 2018ء تک پڑھایا جا چکا ہے۔ (وہ علٰحدہ بات ہے کہ اس ناول کی سادگی، سمجھنے میں آسانی اور معلم وُ متعلم کے درمیان معاشرتی تعلق اور فرائض کو اُجاگر کرنے میں کوئی دوسرا ناول اس سے سبقت نہ لے سکا۔ ) لہٰذا اعلیٰ ثانوی جماعتوں کی ررسی کتب میں جدید تقاضوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تبدیلیاں لانی چاہئیں۔ نصابی عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں اردو اور انگریزی میڈیم کا چناؤ بھی ایک نمایاں رکاوٹ ہے۔ اکثر درویش صفت لوگ اردو میڈیم کے حق میں کچھ اس طرح دلائل دیتے ہیں کہ جاپان اور روس میں سائنسی ترقی کا دار و مدار اُن ممالک میں مادری زبان میں پڑھائی جانے والی درسی کتب پر ہے۔ اگر ہم بھی اپنے ملک میں تمام سائنسی علوم کا اردو میں ترجمہ کیے دیتے ہیں تو ہر اردو سمجھنے والا طالب علم ان علوم سے اِستفادہ حاصل کر سکے گا۔ مگر یہ مفروضہ صرف سطحی طور پر قابل عمل دکھائی دیتا ہے۔ اردو دراصل بر صغیر میں بولی جانے والی زبانوں کا ایک ادبی مجموعہ ہے۔ لہٰذا خالص سائنسی تراکیب کا عربی یا فارسی سے ترجمہ لیا گیا ہے۔ جب کہ انگریزی سائنسی تراکیب میں انگریزی کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر اردو میں بارش ماپنے والے آلے کو مقیاص المطر کہتے ہیں، جو خالص عربی زبان کا مرکب ہے۔ جب کہ اِسی آلے کو انگریزی میں Rain Guage کہتے ہیں، جو اس آلے کے اصلی کام اور مقصد کو بہتر تریقے سے نمایاں کرتا ہے۔ اور ہمارے معاشرے میں اردو سے زیادہ انگریزی کی سائنسی تراکیب استعمال کی جاتی ہیں تو سائنسی علوم کی بہتر تدریس کے لیے انگریزی میڈیم کا انتخاب نسبتاً زیادہ سود مند ثابت ہو گا۔ جب کہ اسلامیات، تاریخ اور دیگر علوم کی تدریس کے لیے اردو زبان کا انتخاب زیادہ مفید ہو گا۔
ہمارے نظامِ تعلیم کا ایک اور برا پہلو یہ ہے کہ طلبہ کی اخلاقی تربیت کرنے کی بجائے انھیں ملازمت کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ بعض ذہین فطین طالب علم امتحان میں عمدہ گریڈ تو لے جاتے ہیں مگر اخلاق سے عاری ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح زیادہ تر طالب علم رٹہ لگا کر امتحان سے گزر جاتے ہیں مگر عملی زندگی میں ایسے لوگ بہت بری طرح ناکام ہوتے ہیں۔ امتحان میں نمبرات کا حصول اور بعد ازاں ملازمت کا حصول مقصد تعلیم نہیں، انسان کو اپنی صلاحیت اور قابلیت کی پہچان کرانا، اُسے اس قابل بنانا کہ وہ اپنے ہنر کے بل بوتے پر ملازمت یا کوئی اور روز گار اپنا سکے۔ مگر ہمارے ہاں زیادہ تر لوگ اعلیٰ تعلیم حاصل کر لینے کے بعد بی۔ ایڈ کر کے ٹیچر بھرتی ہو جاتے تھے۔ اس طرح وہ لوگ بھی معلم بن گئے جنھیں پڑھانے کا تجربہ تھا اور نہ ہی معلمی اُن کی طبیعت کا حصہ تھی۔ حکومت نے اس رجھان کو ختم کرنے کے لیے بی۔ ایڈ کے دورانیے میں اضافہ کر دیا جو کہ نہایت خوش آئند قدم ہے۔ معلمی جیسے مقدص پیشے کو محض تنخواہ بٹورنے اور اونچے گریڈ حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنا سرا سر نا انصافی ہے۔ جہاں ایک معلم کو طلبہ اور طالبات کی دینی، ذہنی، تعلیمی اور روحانی نشونما میں مدد فراہم کرنا، اُن کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا، اس کا اہم اور مقدم فریضہ ہے، وہاں والدین کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کو اچھی تربیت سے آراستہ کریں اور معلم کی توقیر و عظمت سے روشناس کرائیں۔ کسی تعلیمی ادارے میں بچے کا رویہ اُس کے والدین کی دی گئی تربیت کے زیر اثر ہوتا ہے، اس لیے اپنے بچوں کو وہ سکھائیے جو آپ کے لیے اور خود اُن کے لیے مفید ہے۔
پاکستان کے نظامِ تعلیم میں ان گنت مسائل، دیمک کی طرح اس کی بنیادوں کو چاٹ رہے ہیں۔ مگر یہ صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں کہ صرف وہی ان مسائل کا قلع قمع کرے، معلمین، متعلمین، والدین الغرض معاشرے کے ہر کار کن کو ان مسائک کو ختم کرنے میں اپنا تعاون ادا کرنا ہو گا۔ نظام تعلیم کو آسان، سستا، پرسکون اور مقصدیت کے تقاضوں کو پورا کرنے کے قابل بنایا جانا، وقت کی ضرورت ہے۔
حوالہ جات:
1. https://academiamag.com/punjab-education-budget-2019-20-up-in-volume-but-down-in-reality/
2. https://fp.brecorder.com/2019/06/20190612485340/
3. https://propakistani.pk/2017/11/17/pakistan-spends-less-education-south-asian-countries/
4. https://tribune.com.pk/story/1490674/57-increase-pakistans-population-19-years-shows-new-census/
5. https://www.thenews.com.pk/print/309542-pakistan-s-literacy-rate-stands-at-58pc
6. https://www.wikiwand.com/en/List_of_countries_by_literacy_rate
7. http://www.rnitte.edu.pk/images/Private_Govt.pdf
Tags:
Articles