{tocify} $title={Table of Contents}
نظامِ کائنات کئی اجرامِ فلکی کا مجموعہ ہے۔ ہمارا نظامِ شمسی بھی اسی نظامِ کائنات کا ایک حصہ ہے۔ یہ زمین، یہ چاند و سورج اور دیگر ستارے، سیارے اور سیارچے اس لا پیمائش نظامِ قدرت کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔ مگر لازمی نہیں کہ صرف ستارے، سیارے اور کہکشائیں ہی وجود کائنات کی وجہ بنیں۔ بلیک ہولز بھی نظامِ کائنات کا نمایاں حصہ ہیں۔ انھیں فلموں اور سائنسی کتب میں ایک ڈراونے خلائی جسم کے طور پر اُجاگر کیا گیا ہے، جو اپنی طرف آنے والی ہر شے کو اپنے کالے سائے میں سُما لیتا ہے۔ سائنسی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو بلیک ہول ایک ایسا خلائی جسم ہے، جو کسی انتہائی بڑے ستارے کے مردہ ہونے سے وجود میں آتا ہے، ایک زمین کی سی جسامت رکھنے والے بلیک ہول کی کمیت کئی لاکھ سورجوں کے برابر ہو سکتی ہے۔ اس کی کثافت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ روشنی کی شعاعوں کا رُخ موڑ کر اپنے اندر داخل کر لیتی ہے۔ موجودہ تحقیق سے قبل محض بلیک ہولز کی فرضی تصویر کشی کی گئی تھی۔ اس مقالے میں بلیک ہولز کی تاریخی تحقیق، پیدائش، اثرات اور موجودہ تحقیق پر مُفصل بحث کی جائے گی۔
بلیک ہولز پر کی جانے والی تحقیق کا آغاز نومبر 1784ء میں ایک انگریز پادری، جس کا نام جان میکائل (John Michell) تھا نے رائل سوسائٹی کی جانب لکھے جانے والے اپنے مقالے سے کیا۔ اس نے اپنے مقالے میں لکھا کہ کائنات میں سورج کی جسامت کا حامل ایک ایسا جسم ہے جس کا ماس 500 سورجوں کے برابر ہے۔ اس میں اتنی طاقتور قوتِ ثقل پائی جاتی ہے کہ اسکیپ ولاسٹی بھی اس کے اندر موجود اجرامِ فلکی کو باہر نہیں نکلنے دیتی۔ اسکیپ ولاسٹی، وہ ابتدائی افتار ہے جو کسی شے کو کسی جَرم فلکی سے نکالنے کے لیے درکار ہوتی ہے۔ اُس نء مشاہدہ کیا کہ ان عجیب فلکی اجرام کی اسکیپ ولاسٹی، روشنی کی رفتار سے کافی زیادہ ہے۔ 1915ء میں آئین سٹائین نے نظریہ اضافت پیش کیا، جس کے ایک حصے میں روشنی، کشش ثقل کے زیر اثر آ کر اپنی سمت تبدیل کرنے سے متعلق وضاحت کی گئی۔ اس کے کچھ ماہ بعد ایک جرمن ماہر طبیعات Karl Schwarzschild نے آئین سٹائن کی Field Equations کا حل تلاش کرتے ہوئے ایک مرکزی کمیت اور کروّی کمیت کے کشش ثقل رکھنے والے فیلڈ دریافت کیے۔ اس رداس کو Schwarzschild Radius کہا جانے لگا۔
1958ء میں ایک امریکی ماہر طبیعیات David Finkelstein نے اُفق وقفیعہ (Event Horizon) اور Schwarzschild Radius اور نظریہ اضافت کے بل بوتے پر بلیک ہولز کی موجودگی کو ثابت کیا۔ [3][2][1]
بلیک ہولز کی پیدائش سے متعلق کہا جاتا ہے کہ جو ستارے سورج سے حجم اور کمیت میں 30 گُنا بڑے ہوتے ہیں، ان کے انتقال کے نتیجے میں یہ خلائی اجسام وجود میں آتے ہیں۔ ایک ستارہ اپنی روشنی اور حرارتی طاقت، ہائڈروجن کی فیوژن سے حاصل کرتا ہے، یہ عمل اس کے مرکزے میں لگاتار وقوع پزیر ہوتا رہتا ہے۔ یعنی ہائڈروجن بطور ایندھن استعمال ہوتے ہوئے ہیلیم گیس میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ مگر جب ہائڈروجنی ایندھن ختم ہو جاتا ہے تو یہ عظیم ستارے ہیلیم جیسی نوبل گیس کو ایندھن کے طور پر استعمال کرنے لگ جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ لوہے جیسی بھاری دھات کو بطور ایندھن استعمال کرنا پڑتا ہے۔ مگر ایک ستارہ ایسا عمل سر انجام دینے سے قاصر رہتا ہے۔ ستارے کے مرکزے کا ماس کافی حد تک کم ہو چکا ہوتا ہے۔ لہٰذا کشش ثقل کی قوت بھی ماند پڑ جاتی ہے۔ مناسب ایندھن کی مقدار نہ مل سکنے اور کم کشش ثقل کی وجہ سے ستارے کی اوپر والی تہیں پھٹنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ جس سے ستارے کے ارد گرد انتہائی سفید اور چمک دار شعلوں کا غلاف کئی ملین کلو میٹرز تک پھیل جاتا ہے۔ یہ عمل سُپر نووا کہلاتا ہے۔ آئین سٹائین کے نظریہ اضافت کی مساواتوں مد میں پیش کیے جانے والے مفروضے کے مطابق اس عظیم دھماکے کے بعد بچ جانے والے ستارے کے مرکزے کا ماس اگر سورج سے تین گُنا زیادہ ہو تو اس میں اتنی کشش ثقل ہو گی جو اپنے ارد گرد موجود ہر شے کو اپنے اندر کھینچ لے گا۔ مگر یہ سب عوامل بلیک ہول کی تخلیق میں معاون ثابت نہیں ہوتے۔ اس لا محدود قوت ثقل رکھنے والے خلائی مجسم کو بلیک ہول میں تبدیل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے آس پاس گیسوں کے بادل اور گرد کے ذرات ہوں۔ چناں چہ وہ خلائی مجسم جتنی مقدار میں انھیں اپنے اندر جذب کرے گا، اُتنی ہی اس کی جسامت میں اضافہ ہوتا جائے گا اور بلآخر بلیک ہول میں تحویل ہو جائے گا۔ [6][4]
جب ہم کسی بلیک ہول کے اثرات کا ذکر کرتے ہیں تو دراصل ہم اس کی ساخت اور کام کرنے کے انداز کو بیان کر رہے ہوتے ہیں۔ ذرا تصور کیجیے آپ کے پاس اتنا جدید خلائی جہاز ہے جو روشنی کی رفتار کی سی سپیڈ پکڑ لے اور آپ کو کسی بلیک ہول کے قریب پہنچا دے تو آپ کو اپنے خلائی جہاز کی کھڑکی کے سامنے انتہائی تاریک مجسم دکھائی دے گا۔ آپ جوں جوں اس کے اندر جائیں گے، آپ کے ارد گرد تاریکی اپنے پر پھیلاتی جائے گی۔ یہاں تک کہ آپ کو اپنی مخالف سمت میں ساری کائنات محض ایک چھوٹے دائرے کی طرح دکھائی دے گی۔ آپ کے سامنے افق وقفیہ کی حدود موجود ہوں گی۔ ان حدود کو عبور کر لینے کے بعد آپ وحدانیت (Singularity) کے اندر خود کو موجود پائیں گے۔ یہ ایسا علاقہ ہے جہاں عظیم قوتِ ثقل کی بدولت وقت تھم جاتا ہے اور روشنی باہر نہیں نکل سکتی۔ آپ پیچھے جانے کی کوشش کریں گے مگر رکے ہوئے وقت کی وجہ سے واپس نہیں جا پائیں گے۔ [8][7][5]
بلیک ہولز کو دریافت ہوئے تقریباً ایک صدی بیت گئی ہے، تاہم کوئی سائنس دان یا ٹیلی سکوپ ان کی شکل دنیا کو نہیں دکھا سکا۔ بلیک ہولز کی ماہیت کو تخیلاتی تصورات پر مبنی تصاویر اور فلموں کی مدد سے نمایاں کیا گیا۔ تاہم ان کی اصلی تصویر کشی آسان کام نہ تھا۔ M87 کہکشاں میں واقع ایک بلیک ہول کی تصویر بنانے کا پروگرام بنایا گیا۔ مگر یہ کسی ایک ٹیلی سکوپ کے بس کا روگ نہ تھا۔ 55 ملین لائٹ ایئرز دور بلیک ہول سے نکلی الیکٹرو میگنیٹک ریڈی ایشنز کو حاصل کرنے کے لیے تقریباً زمین کی جسامت کے برابر بر اعظم یورپ، شمالی امریکہ، جنوبی امریکہ، بحر الکاہل میں واقع امریکی ریاست ہوائی اور برِ اعظم انٹارکٹکا کی حدود میں واقع ٹیلی سکوپ کا نیٹ ورک، جس کو Event Horizon Telescope کا نام دیا گیا تھا، قائم کیا گیا۔ کسی ٹیلی سکوپ کی میگنی فیکیشن کی طاقت کا انحصار اُس کے ڈش کی جسامت پر ہوتا ہے، اتنے دور واقع اس فلکی مجسم کی واضح تصویر کے لیے زمین کی جسامت کے برابر ڈش کا رداس ہونا چاہیے۔ جو عملاً نا ممکن تھا۔ مگر ان ٹیلی سکوپ کے نیٹ ورک نے یہ مشکل آسان کر دی۔ اب دوسری مشکل سبھی ٹیلی سکوپس کا رخ صاف موسم میں، آسمان کی جانب موڑنا تھا۔ ہر براعظم میں موسم کی مختلف صورتِ حال ہوتی تھی۔ بلآخر ایک روز سبھی بر اعظموں میں مطلع صاف تھا اور ٹیلی سکوپوں کے نیٹ ورک نے M87 کہکشاں کے برقی و مقناطیسی شعاعوں کو اپنے اندر سمونا شروع کیا۔ مکمل ریکارڈ کو اپنی منزل تک پہنچانے میں 6 ماہ سے زیادہ کر عرصہ لگا۔ محققین کا اگلا کام ان بکھرے ریکارڈ سے بلیک ہول کی تصویر تراشنا تھا۔ انھیں ایک سیکنڈ میں 66 گیگا بائٹس ڈیٹا پروسس کرنا پڑتا تھا۔ دن رات مصروف سائنس دانوں کی محنت رنگ لائی اور پیانو کے سُر تشکیل دینے کی تکنیک استعمال کرتے ہوئے انھوں نے آخر کار 10 اپریل 2019ء کے دن دنیا کو بلیک ہول کی ذرا دھندلی مگر حقیقی تصویر سے روشناس کرایا۔ [9]
حوالہ جات:
1. https://www.wikiwand.com/en/Black_hole
2. https://www.wikiwand.com/en/Escape_velocity
3. https://www.wikiwand.com/en/General_relativity
4. https://www.wikiwand.com/en/Einstein_field_equations
5. https://www.wikiwand.com/en/Event_horizon
6. https://www.livescience.com/63436-llm-how-black-holes-form.html
7. https://science.howstuffworks.com/science-vs-myth/what-if/what-if-black-hole-formed-near-solar-system1.htm
8. https://www.youtube.com/watch?v=jS5_oxo_0PU
9. https://www.sciencenews.org/article/event-horizon-telescope-black-hole-picture
Tags:
Articles