چائنا پاکستان اقتصادی راہداری کا میانوالی ضلع سے گزرنا کسی نعمت سے کم نہیں۔ جہاں اس راہداری نے فاصلوں کو کم کیا ہے، وہاں اس کے قیام نے میانوالی جیسے پسماندہ ضلع، بالخصوص اس کے شمال مشرقی علاقوں میں اُمید اور ترقی کی ایک نئی کرن لے کر ابھرا ہے۔ ہمیں پکی شاہ مردان چھوڑے تین سال سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے پر اس مختصر دورانیے میں سی پیک کے منصوبے کی تکمیل کے بعد مثبت و منفی اثرات دھیرے دھیرے منظرِ عام پر آ رہے ہیں۔ آئیے ان کا ایک ایک کر کے جائزہ لیتے ہیں۔
فاصلے میں کمی
ہمارے علاقے میں سی پیک کے قیام کا نمایاں اثر میانوالی اور راول پنڈی کے درمیان فاصلے میں کمی کے تحفے کی صورت میں نمایاں ہوا ہے۔ جو سفر پہلے پانچ گھنٹوں میں پہاڑوں پر بل کھاتی سڑکوں پر الٹیاں کرتے گزرتا تھا، اب ڈھائی سے تین گھنٹوں میں بنا کوئی چڑھائی چڑھے پورا ہو جاتا ہے۔
مگر اس فائدے کا ایک اثر یہ بھی ہوا ہے کہ تلہ گنگ روڈ کی ٹریفک میانوالی تا کالاباغ روڈ پر منتقل ہوئی ہے۔ وقت اور پٹرول بچانے کی خاطر کراچی سے آنے والے لائنروں، ٹرکوں اور ٹریلروں نے اس One Way Road کو اپنی ترجیح خاص سے نوازا ہے۔ جس کے نتیجے میں اس ناتواں سڑک پر ٹریفک خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے جو پکی شاہ مردان تا میانوالی موٹر سائیکل پر سفر کرنے والوں کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔
نئی صنعتوں کا قیام
ہمارے گرد و نواح میں سیمنٹ اور کھاد کی صنعتیں کئی دہائیوں سے قائم ہیں اور وہ 38302 کا شناختی کارڈ رکھنے والوں پر انوکھے انداز سے مہربان ہوئے ہیں۔ مگر وسائل کی کمیابی کے باعث کھاد فیکٹری میں کام کرنے والوں کو اپنی تنخوا ملنے کے لالے پڑے ہوتے ہیں۔ اس راہداری کی اقتصادی نوعیت ہونے کے باعث داؤد خیل انٹر چینج کے رداس میں ایک پرزے جوڑ کر بسیں بنانے کا کارخانہ اور Colgate کی فیکٹری زیر غور ہے۔ کیا ان فیکٹریوں میں مقامی لوگوں کے لیے نوکریوں کی جگہ ہو گی؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے مگر ان نئی صنعتوں کی حدود میں کاروبار کرنے والوں کے لیے چاندی ہی چاندی ہو گی۔
کاروبار کے نئے مواقع
چین اپنی اس راہداری کو دوسرے ممالک میں اپنی مصنوعات پہنچانے کے لیے استعمال کرے گا۔ مگر عین ممکن ہے کہ ہم چائنا سے سستے داموں میں اُن کی مصوعات اپنے کاروبار چلانے کے لیے منگوا سکیں گے۔
جن علاقوں سے راہداری گزر رہی ہے، وہاں سفری سہولیات و ضروریات کے حامل کاروباروں کو خاصی تقویت ملے گی۔ ال باسط ہوٹل کی مثال ہی لے لیجئے۔ دس ہزار (اور داؤد خیل انٹر چینج) جیسے "ویران علاقے" کے سنگم پر واقع یہ ہوٹل جو کہ کسی زمانے صرف کالاباغ تا میانوالی جانے والے مسافروں کے لیے چائے یا کڑاہی کھانے کے لیے رکنے کا ایک بہانہ ہوتا تھا، اب وہ مولانا فضل الرحمان جیسے کئی دیگر مسافروں کو اپنی جانب کھینچ رہا ہے اور یقیناً وقت آنے پر اس کے مقابلے میں کئی اور ہوٹلز بھی کھلیں گے۔
انٹرنیٹ کے نظام میں بہتری
۲۰۱۵ میں پکی شاہ مردان میں جاز کا 2G انٹرنیٹ بمشکل ہی صبح سے شام ۷ بجے تک چلتا اور اُس کے بعد صرف Request Time Out کا ہی شور مچتا۔ ۲۰۱۸ میں جاز کے انٹرنیٹ میں کچھ اِس طرح بہتری آئی کہ شام کے مصروف اوقات میں بھی 2G انٹر نیٹ چلتا رہتا۔ ۲۰۲۲ میں بلآخر جاز نے پکی شاہ مردان میں Stable 4G سروس بحال کر دی۔ اگر غور سے سوچا جائے تو یہ محض ایک اتفاق نہیں۔ کہیں نہ کہیں اس سہولت کے پیچھے سی پیک کار فرما دکھائی دے رہا ہے۔
علاقائی سڑک کی تعمیر
پکی شاہ مردان کے مختلف حصوں کو جوڑنے والی سڑک کی تخریب و تعمیر کی ایک الگ ہی داستان ہے۔ کبھی بارش کے موسم میں نالے کا منظر پیش کرتی تو کبھی رکشے پر بیٹھ کر پکی موڑ جاتے ہوئے لاثانی ہچکولوں کی سوغات پیش کرنے والی یہ سڑک اپنی مثال آپ ہے۔ رہی سہی کسر سیوریج کے اُبھرے ہوئے گٹروں نے نکال دی۔ مگر سلیب اور ٹف ٹائل کے مرکب سے بننے والی علاقائی سڑک ممکنہ طور پر مقامیوں کی مشکلات کو ختم کر سکتی ہے۔ علاقائی سڑک کی تعمیر کے ساتھ ساتھ ہوزیوں کی کھدائی بھی خوش آئند ہے جو سڑک کو تالاب بننے سے روک سکتی ہے۔
پی ٹی آئی کی یہ کاوش تعریف کے لائق ہے مگر یہ کاوش ایک ایسے موقعے پر سامنے آئی ہے جب ان كا صرف آخری سال رہ گیا ہے مگر اس کی تعمیر کا تعلق سے پیک کے ساتھ بھی جوڑا جا سکتا ہے۔ ذرا سوچیے کہ جو سڑک پچھلی کئی دہائیوں سے ٹوٹ پھوٹ کی شکار رہی ہے، وہ اب اتنی مضبوط کیوں بنائی جا رہی ہے۔ حکومتیں تو آتی اور جاتی رہتی ہیں مگر سی پیک کے باعث آنے والی نئی صنعتوں کے اندر کام کرنے والے دوسرے علاقوں کے لوگوں کو ایک اچھا ماحول دیا جا سکے جو پکی شاہ مردان میں کسی کے کرایہ کے مکان میں رہنا چاہیں گے۔
جگہوں کی قیمتوں میں اضافہ
جہاں جہاں یہ راہداری گزر رہی ہے، وہاں کی زمینی جگہوں کی قیموں میں بڑا اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔مگر اندرون پکی شاہ مردان جو سی پیک سے کافی دور ہے، وہاں 2 کنال کی زمین 35 لاکھ میں بکی ہے۔ یہ اضافہ جہاں زمین رکھنے والوں کو زیادہ پیسے مہیا کرتا ہے، وہاں یہ اُن لوگوں کی خواہش پر کاری ضرب کے مترادف ہے جو اپنا گھر بنانے کا خواب لے کر پائی پائی جاتی مگر اب زمین کی قیمت ان کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ اور ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے۔
پس سی پیک کی آمد سے پکی شاہ مردان اور گرد و نواح کی حالت زار تبدیل ہو گی یا نہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر مجھے پوری اُمید ہے کہ جالی والی کھڑکی سے شروع ہونے والا کاروباری سفر شیشے والی بڑی دکان پر اپنا عروج حاصل کرے گا۔ تب تک آپ اپنا اور اپنے پیاروں کا خیال رکھیے اور موٹر سائیکل پر سفر کرنے سے گریز کیجے۔