گھر کی کھڑکی سے باہر کی دنیا کیسی دِکھائی دیتی ہے؟ میری مُختصر بیرونی زندگی کی اندرونی کہانی

{tocify} $title={Table of Contents}

اگر آپ میرے گھر والوں سے پوچھیں کہ مَیں اپنا دن کیسے گزارتا ہوں تو اُن کا صرف یہ تین حرفی جواب آئے گا: "کمپیوٹر، ٹی وی اور سونا"۔ یہی ہے میری سادو سی زندگی جو ہمیشہ سے ایسی نہیں تھی۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ مَیں نے اپنی زندگی کے بائیس سالوں میں صرف چند روز ہی باہر کی دنیا گھومی ہے مگر جب بھی گھومی ہے، گرد و پیش سے پورا لطف اُٹھایا ہے۔ تو چلیئے آپ کو بھی میرے گھر کی کھڑکی سے باہر کی دنیا کی سیر کرواتا چلوں۔ 

How the World is Percieved by an Inner Junkie?

راول پنڈی - 2001ء؁

مجھے خواب سا یاد آتا ہے کہ میرا باہر کے سفر کا آغاز موٹر سائیکل پر کسی کے آگے بیٹھنے سے شروع ہوا اور کچھ لمحوں بعد ہم کسی گہرے رنگ کی چھوٹی چھوٹی گھاس سے گھرے میدان میں تھے مگر مَیں نے ایک چھوٹے سے سفید رنگ کے پھول کو پکڑا اور آگے کچھ یاد نہیں۔ اس رومانوی حافظے کے خوائص ایک چار سالہ بچے سے ملتے جُلتے ہیں اور اِس عمر میں میرے والدین میری نظر چیک کروانے راول پنڈی گئے تھے۔ اِس طرح کی سینری ہمارے اُس وقت کے پکی شاہ مردان میں ممکن نہ تھی۔ تو ممکن ہو سکتا ہے کہ مجھے میرے چچا یا ماموں زاد بھائی باہر گھمانے لے گئے ہوں گے۔ 

حویلی - 2003ء؁ تا 2011ء؁

جوں جوں عمر بڑھی، توں توں قوتِ حافظہ کو بھی جِلا ملی۔ جب میری امی، میری پھوپھی سے ملنے حویلی* جاتیں تو مَیں بھی اُن کے ساتھ ہو لیتا۔ پھوپھی جس گھر میں رہ رہی تھیں، اُس گھر میں ایک گہرا کنواں تھا مگر میری توجہ برامدے کے فرش پر سفید رنگ کے پھولوں سے بنے گول ڈیزائین اور اُن کے بڑے مگر پکے صحن میں گیٹ کے درمیان سے لے کر برامدے تک پھیلی نالیوں پر ہی اٹکی رہتی۔ باورچی خانے میں رکھے لکڑیوں سے جلنے والے چولہے کو ایک بڑے سے خانے میں رکھا دیکھ بڑی حیرت ہوتی۔ [وہ علٰحدہ بات ہے کہ بعد ازاں معلوم ہوا کہ اِسے چمنی کہتے ہیں۔ ] اِس گھر کی کمروں کی پیچھے لگی کھڑکیوں سے لٹک کر باہر جھانکنا بچپن کی، شرمندہ کر دینے والی یادیں ہیں۔ بعض دفعہ چاچا طالِب کے گھر جاتے ہوئے چاچا مُظفر کے گھر کے عقب والی موری** سے گزرنا پڑتا۔ موری سے گزتے ہی خود کو ایک تاریک مستطیل نُما کمرے میں پاتا، جو اُس موری کی بالکل سامنے لگے کھلے دروازے اور اطراف میں مستطیلی روشن دانوں سے بمشکل ہی روشن ہو پاتا۔ یہ کوئی عام  کمرہ نہ تھا، بل کہ اُن کی گائے کا آستانہ تھا۔ 

ڈیرہ سیداں والا - 2003ء؁ تا 2012ء؁

حویلی، پپلاں میں واقع ڈیرہ سیداں والا کے مقابلے خاصی بے کیف تھی۔ کیوں کہ وہاں گھر ہی گھر تھے۔ جب کہ ڈیرہ سیداں والا سبزے سے گھرا کھلا علاقہ ہے۔ وہاں ہماری چھوٹی پھوپھی اور ماموں جان کا گھر ہے۔ وہاں پہنچنے کے لیے دو بار گاڑیاں بدلنا پڑتیں۔ ایک پکی موڑ سے میاں والی جب کہ دوسری میاں والی سے پپلاں۔ وہاں پہنچنے کے لیے عموماً تین گھنٹے لگ جاتے۔ باقیوں کے لیے یہ لمبا سفر ناگوار گزرتا مگر مجھے جو چنگ چی رکوانے میں خوشی ہوتی، وہ سر سبز نظاروں میں تیرتی گاڑیوں سے دوبالا ہو جاتی۔ ہرنولی کی نہر کا شفاف پانی پر بادلوں کا عکس ابھی بھی آنکھوں میں تازہ ہے۔ 

گاڑی "ڈیرہ سیداں والا" والے بورڈ کے کبھی آگے تو کبھی پیچھے رک جاتی اور مَیں ابو جان یا امی کا سہارہ لے کر اینٹوں والی 'سڑک' پر چلنے لگتا۔ یہاں تو ایک اور ہی دنیا تھی۔ پکی شاہ مردان کی گلیاں دونوں اطراف سے مکانوں سے گھری رہتیں۔ مگر اِس چھوٹے سے ڈیرے والی گلی کے مغرب میں مکاناتی دیواریں مشرق میں پھیلے دراز آسمان کے سامنے پسپا ہو جاتیں۔ آسمان کی اِس نیلی ہیّت اور چیونٹی کی جسامت سے دکھنے والے درختوں کا جھرمٹ جہاں عجب دِکھتا، وہاں مجھ پر یہ حقیقت بھی آشکار ہوئی کہ آسمان چند دیواروں سے نہیں ہارتا۔ آسمان کی بادشاہت سے گھرے، وہاں ایک درخت کی شکل بالکل 'ھ' کی طرح دکھائی دیتی۔ 

ڈیرہ سیداں والا کا ہرا منظر - از فہر عباس

ہمارا ننھال پُلی سے ذرا آگے آباد ہے۔ اُن کے گھر کا دروازہ درختوں سے بھرے میدان سے گھرا ہوتا۔ گھر کے اندر داخل ہونے کے کچھ دیر بعد میری یہی کوشش ہوتی کہ میں کسی نہ کسی طرح باہر نکلوں۔ پس امی کی روکنے کی لاکھ کوششوں کے باوجود مَیں، فہر اور دیگر بچے شمال میں واقع چھوٹے سے دروازے سے ہوتے ہوئے پھر مشرق میں گہرے رنگ والے گیٹ سے باہر نکل پڑتے۔ وہ سبھی کرکٹ کھیلتے تو میں پُلی پر بیٹھا انھیں دیکھتا رہتا۔ مَیں مناسب موقع بھامپ کر مرکزی گلی پر سِرک پڑتا۔ مجھے باہر آنے کا راستہ تو معلوم تھا مگر واپس جاتے وقت کسی اور کے گھر گھس جاتا۔ مگر وہ سبھی گھر ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے تھے۔ ایک دفعہ تو مرکزی گلی پر آگے بڑھتے بڑھتے پتا چلا کہ کھیت میں گھس گیا ہوں۔ 

رات کے وقت یہاں کے آسمان پر چمکنے والا چاند دھندھلا دکھائی دیتا۔ اُن کے گھر کے پاس ہی میں باہر ایک برامدے پر مشتمل ایک کمرے سے نکلتی روشنی اُس کے چاروں طرف پھیلے کھیتوں کو چاند سے بڑھ کر روشن کر دیتی۔ چھوٹی سی عمر میں مَیں اکثر پھوپھی کے باورچی خانے گھس کر چپکے سے ڈول کھول کر گُڑ کھاتا رہتا اور اُن کے ہسایہ گھروں کے اندر سائیکلی سے جا کر معائنہ کرتا رہتا۔ ایک گھر کی تِنکوں سے بنی چھت پر پنکھے کی بجائے بچے کا جُھولا لٹک رہا تھا۔ مجھے کہانیوں والی کتابیں پڑھنے کا موقع یہاں آزادی سے ملتا۔ وہ الگ بات ہے کہ ساری کتابیں "کرن اردو قوائد و انشاء پردازی" جیسی صورت پیش کرتیں۔ دو قدم مزید آگے بڑھائے تو امام بارگاہ کی تعمیراتی سائیڈ پر ڈرم میں پڑے گاڑھے سفید محلول کو سلاخ سے پھیرنے لگا۔ جب ایک بچے نے میری گود میں ایک چھوٹے میمنے کو رکھا تو میری چیخیں ہی نکل گئیں۔ 

ڈیرہ سیداں والا میں میری دو یادیں سب سے نمایاں ہیں۔ 2008ء؁ میں اِن کے امام بارگاہ میں مجھے منبر پر چڑھ کر سینکڑوں عقیدت مندوں کے سامنے، ہمارے آئمہ و معصومین کی شان وُ عقیدت میں قصائد پڑھنے کا موقع دیا گیا۔ اور 2012ء؁  میں شام کے وقت جب ہم سبھی روٹیاں بنوانے کسی بہت بڑے صحن والے گھر گئے تھے تو بارش ہو چکنے کے بعد پورے آسمان پر سیاہ بادلوں کے پسِ منظر میں قوسِ قزح چمک اُٹھی۔ مَیں اپنی زندگی میں آج تک دھنک کا وہ حسین اور واضح منظر نہیں دیکھ سکا جو اُس کھلے صحن میں دیکھنے کو ملا۔ افسووس کہ اُس وقت میرے پاس کوئی کیمرے والا فون نہ تھا وگرنہ وہ منظر میرے گوگل کروم کا وال پیپر ٹھیرتا۔ یہی سنہ اِس خوب صورت سحر سے بھری سر زمین میں میرے پڑاؤ کا آحری سال قرار پایا اور بیماری کی وجہ سے کئی سالوں کے لیے باہر جانا نا ممکن ہو گیا۔ 

پکی شاہ مردان - 2003ء؁ تا 2019ء؁

حویلی کے علاوہ پکی شاہ مردان میں زیادہ تر میرا آنا جانا مقدص عمارات، ابو جان کے ساتھ مختلف شادی کی دعوتیں، حجام اور مہدی و صابر کی دکانوں تک ہی محدود رہتا۔ سنہ طفل میں امی جان کے ساتھ ماہ محرم کے دوران جہاں ساتویں محرم کی رات کو برقی لائیٹوں سے سجی شہزادہ امیر قاسمٔ کی سیج تو دسویں محرم کی رات کو شہدائے کربلاء کی یاد میں بنائے جانے والے، بھینی خوش بو میں مہکتے، جگ مگاتے تازیئے آنکھوں میں ان مٹ نقوش چھوڑتے۔ ابو جان کے ساتھ دو مرتبہ گیارویں محرم کے دن آنے والے مُکانڑیوں کا جمِ غفیر اور مختلف چمکتے پتھروں، انگوٹھیوں، مذہبی کتابوں، کیسٹوں اور سی ڈی ریکارڈ بیچنے والوں کے سٹالز دیکھ کر ذہن میں کئی سوالات جنم لینے لگتے۔ 

حجام کی دکان پر ہر چھ ماہ بعد ہی بالوں پر تھریشر پھروائی جاتی۔ جو بعدِ ازاں چاچا نذر نے گھر آ کر ہی سمبھال لی تھی۔ عید الفطر سے پہلے گھر والوں کے ساتھ مَیں خود بھی مہدی کی دکان پر کھلونے خریدنے جایا کرتا۔ مہدی کی دکان چھوٹی مگر ضرورت کی اشیا سے چاروں طرف بھری ہوتی۔ مگر مَیں بیٹری سے چلنے والی ایمرجنسی روشنیوں اور ایک خالی موبائل فون کے ڈبے کو ہی گھورتا رہتا۔ 2018ء؁ میں پانچ سالوں کے بعد ابو جان کے ساتھ جب اپنے نوکیا 1100 کے لیے سِم خریدنے گیا تو مہدی بھائی میری بدلی شکل دیکھ کر بڑے حیران ہوئے۔ 

ال بدر مسجد میں عیدِ میلاد النبی ﷺ کے موقع پر بڑی گہما گہمی ہوتی اور ہم سبھی باہر نکل کر ریلی کا استقبال کرتے۔ 

البدر مسجد کا ایک منظر

کالا باغ - 2007ء؁ تا 2018ء؁

کالا باغ دیکھنے کا ارمان بچپن ہی سے تھا۔ مگر یہ خواہش ہنسنی والی ہڈی ٹوٹنے پر پوری ہوئی جب ڈاکٹر سرور والے ہسپتال میں کا م کرنے والے کمپونڈر نے کالا باغ ایکس رے کروانے کا کہا۔ چناں چہ چاچا غلام عباس (ہمارے مغربی ہمسائے) نے اپنا موٹر سائیکل نکالا اور کالا باغ کے لیے نکل پڑے۔ میں البتہ درد سے کراہ رہا تھا مگر انگریزوں کے دور سے بنے کالاباغ والے پل کا منظر مِس نہیں کر سکتا تھا۔ لہٰذا ہم گھر سے نکلنے کے کچھ منٹوں بعد پل پر تھے۔ لکڑی سے بنے پل کی حالت خستہ اور خطر ناک تھی۔ بائیک اگر ایک طرف گزرتی تو پُل کی دوسری طرف والے پھٹے اوپر اٹھ جاتے۔ 

کالاباغ کی جانب دوسرا سفر میرے اعلیٰ ثانوی امتحان کے سلسلے میں ہوا۔ اُس وقت لکڑی سے بنے پل کو جدید سیمنٹ والی پختہ سڑک میں بدل دیا گیا۔ مگر لوہے کا فریم جوں کا توں رہا۔ اردو کا امتحان دے چکنے کے بعد واپسی پر راستے میں بارش ہو چکی تھی۔ بارش سے بچنے کے لیے ہم نے کھنڈر ریلوے اسٹیشن میں پناہ لی۔ پاس ہی میں کالی گھٹاؤں کی اوٹ میں چھپا ٹرانسفارمر انکھوں کو چندھیانے والی چمک سے تڑک رہا تھا۔ اِن امتحانات کے بعد آخری مرتبہ کالاباغ اپنا معذوری والا سرٹیفکیٹ بنوالے کے لیے بینائی کی ماہیت چیک کروانے گیا تھا اور واپسی پر آتے ہوئے شام کی تاریک روشنی سے منور سڑک پر گاڑیوں کی چمکتی دو آنکھیں ہمیں راستے کی رکاوٹیں دیکھنے میں مدد دیتیں۔ 

ڈھیر امید علی شاہ 2008ء؁ اور 2010ء؁

ڈھیر امید علی شاہ سے متعلق کافی سن رکھا تھا۔ آخر کار 2008ء؁ میں پہلی بار وہاں جانے کا موقع مل ہی گیا۔ ڈھیر امید علی شاہ گندم اور چاول کے کھیتوں سے گھرا ایک چھوٹا سا رہائشی علاقہ ہے۔ ڈیرہ سیداں والا کی نسبت یہاں کی اندرونی گلیاں پکی شاہ مردان جیسا منظر پیش کرتی ہیں۔ زیادہ کچھ یاد نہیں مگر امجد کا اپنے لیپ ٹاپ پر مجھے کمپیوٹر چلانا سکھانا اچھی طرح یاد ہے کیوں کہ میں نے پہلی مرتبہ اپنی چھٹی والی کتاب سے آگے بڑھ کر اپنے ہاتھوں سے بڑی اسکرین پر ایک ادھوری تصویر بنائی۔ 

ڈھیر اُمید علی شاہ سے متصل ٹھٹی کے ایک بنا دیوار گھر کے سامنے مگر دور واقع درختوں کے جھرمٹ سے چھن کر آنے والی جناح بیراج کی روشنیاں آسمان پر چمکتے شفاف ستاروں کو شرما دیتیں۔ 

جوہر آباد - 2017ء؁

ستائیس رمضان یعنی عید کی گہما گہمی مگر ہمارے سرگودھا بورڈ کو اپنے فرضِ منصبی پورا کرنے کی دُھن سوار تھی۔ رول نمبر سلپ پر جغرافیہ کے عملی امتحان کے لیے جوہر آباد کے ایک کالج کا انتخاب کیا گیا۔ ہمارے لیے اُن روز میاں والی جانا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا کیوں کہ عید کی خوشی سے سرشار گاڑیاں دیگر مُسافروں کو اپنی منازل تک پہنچانے میں مصروف تھیں۔ مگر ہمارے مشرقی ہمسائیوں نے یہ مسئلہ ایک کیری ڈبے کا انتظام کر کے حل کر دیا گیا۔ پس مَیں اور ابو جان علی الصبح بیدار ہو کر البدر مسجد کے سامنے کھڑے ہو کر محو انتظار رہے۔ اِس سفر مَیں اور میرے ہمسایہ علی ساتھ تھے۔ راستے میں دیگر طالب علم بھی شامل ہوتے چلے گئے۔ اِس طرح ہم سات Sanrwich.rar کی مثل سُوئے منزل گامزن تھے۔ اِس دور میں کمزور بیٹری والے سمارٹ فون اپنی گرفت مضبوط کر چکے تھے۔ گاڑی میں موجود آدھے طالب علم موسیقی اور تصاویر لینے میں مصروف رہے۔ شیراز نامی لڑکے نے جوہر آباد کالج جی۔ پی۔ ایس۔ پر لے رکھا تھا (ہاں البتہ اُس نے غلط لوکیشن دے رکھی تھی 😁)۔  جاتے ہوئے ساڑھے تین گھنٹوں کا سفر آرام سے کٹا مگر واپسی پر ایک چھوٹا پتھر لگنے سے گاڑی کا اگلا شیشہ ریزہ ریزہ ہو گیا۔ ڈرائیور کا نقصان مہنگا تھا مگر خوش قسمتی سے کسی کو خروچ تک نہ پہنچی۔ 

جوہر آباد والے سفر کی ایک یاد

میاں والی - 2006ء؁ تا 2020ء؁

منتقلی سے قبل

میاں والی کو دیکھنے کا آغاز ایک میری کلائی کی ہڈی ٹوٹنے سے ہوتا ہے جس کے لیے چھ ماہ لگاتار ڈاکٹر ہاشمی سے پٹی کرائی جاتی رہی۔ مگر اِس کمسن عمر میں میری آنکھیں کھوکھلے جہاز، رنگ برنگی فٹ پاتھ اور اُسی رنگ میں سجی سرکاری عمارات کی دیواروں پر ہی لگی رہتیں۔ کبھی کبھار بڑے چاچو کے گھر بھی چکر لگا لیتے۔ 2017ء؁ سے امتحانی اغراض کی خاطر انٹر کی تعلیم جسمانی کا عملی امتحان دینے گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج میاں والی کا رخ کیا۔ اس کے سامنے ہمارے آٹھ کنال پر واقع گورنمنٹ ہائی سکول صرف ایک کھیل کے میدان کے برابر تھا۔ پس میں نوٹس بورڈ کے سامنے رکھے بنچوں پر بیٹھ گیا اور وہاں بیٹھے ایک صاحب سے صحت قائم رکھنے کے موضوع پر بات چھڑ گئی۔ بعدِ ازاں معلوم ہوا کہ وہی ہمارا عملی امتحان لینے والے ہیں۔ 

نومبر 2017ء؁ میں مندرجہ بالا کالج میں بی۔ اے۔ میں داخلہ لینے کے بعد گھر سے باہر دیکھنے کے نظریئے میں تبدیلی آئی۔ وہیں ساتھ میں مجھے نئی جگہوں کو بھی دیکھنے کا موقع ملا۔ اپریل 2019ء؁ میں بی۔ اے۔ کے سالانہ انتحان بھی ہمارے کالج میں منعقد ہونا تھے۔ چوں کہ سب کیمپس (موجودہ یونی ورسٹی آف میاں والی) اور ہمارے کالج میں آنے جانے کے لیے ایک چھوٹا دروازہ کھلا تھا اور میری بڑی بہن بھی سب کیمپس میں تعلیم پذیر تھیں۔ ہم دونوں بہن بھائی، ساجد والی کوچ سے، یونی ورسٹی گیٹ سے ہوتے ہوئے، چھوٹے بُوئے*** سے نکل کر کالج پہنچ جاتے۔ امتحان سے فارغ ہو چکنے کے بعد تین گھنٹے اسی یونی ورسٹی بیٹھا رہتا اور ایئر فون کانوں میں ٹھونسے SALTISH سے پیٹ کی بھوک مٹاتا۔

بِلا تبصرہ 

اگر چہ یونی ورسٹی اور کالج میں صرف ایک چھوٹی سی ریوار تھی، مگر معاشرتی دیوار خاصی بلند تھی۔ دیوار کے اِس پار مائع لگے کاٹن سوٹ تھے تو اُس پار پیوند لگا یونی فارم؛ اِس پار چھ انچ لمبی جگمگاتی اینٹ ہر ہاتھ کا زیور تھی تو اُس پار بٹنوں والے فون خال خال نظر آتے۔ کالج میں جہاں میری شناسائی پوری جماعت تک پھیل چکی تھی، یونی ورسٹی کے بولتے سمندر میں مَیں اپنے فون کی موسیقی والی دنیا میں گم رہتا۔ مگر اِس صورتِ حال میں موسیقی صرف ایک گھنٹہ بھاتی ہے۔ باقی دو گھنٹے جیسے تیسے گزر ہی جاتے۔ مگر آخری روز 2016ء؁ سے قائم ہونے والی یوٹیوبی شناسائی نے میرے اور مُبیر احمد کے درمیان چمکتے شیشے کی دیوار توڑ کر ہمیں ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کیا۔

منیر احمد اور مَیں 

دوپہر کے وقت ہونے والے امتحانات کے بعد ایک روز ریسکیو 1122 کے دفتر کے سامنے کھڑے ہو کر تقریباً پینتالیس منٹ گاڑی کے لیے انتظار کرنا پڑا۔ میں جہاز چوک کے نیچے مڑتی گاڑیوں کو حسرت سے دیکھتا رہتا کہ کوئی تو ہماری طرف آئے گی مگر سبھی گاڑیاں شمال مڑ جاتیں۔ منتقلی والے دن ہمارا رِکشہ بھی ہم جونیئرز اور ہمارے ٹیلی وژن کو لے کر بلآخر ہمیں جہاز چوک کے شمال لے ہی گیا۔ 

مُڑتی کوچیں

منتقلی کے بعد

میاں والی شفٹ ہو جانے کے ایک ماہ بعد اپنے بھائی کے ساتھ رات کے وقت بلو خیل روڈ پر دن کے سماں میں جلتی دکانیں دیکھنے کے بعد تب مجھ پر قلعی کھلی کہ اُس وقت سے تقریباً بارہ سال قبل چچا جان کے گھر کے جنوب سے رات کے اندھیرے میں تیز  روشنی کیوں آ رہی تھی۔ نئی جگہ پر حجام تی تلاش بھی ایک الگ مِسٹری بن جاتی ہے۔ پہلے روز مَیں اور ابو جان آدھے گھنٹے تک گلیوں میں نائی کی دکان تلاشتے رہے۔ یہاں تک کہ ہم اپنے گھر کا راستہ بھی بھول گئے۔ مگر پھر ڈھونڈ ہی نکالا۔ یہاں کی دکانوں کے دروازے موٹے شیشے سے بنے ہوئے تھے۔ جس کے اندر جھانکنے سے بڑا خوب صورت پیٹرن دکھائی دیتا۔ 

موٹے شیشے میں روشنی سے بننے والا پیٹرن

نومبر میں میرا داخلہ ڈگری کالج میاں والی میں انگریزی ادب کے سلسلے میں ہوا۔ انکل غفار کی چنگچی اداراتی عمارت تک مجھے چھوڑ آتی۔ پندرہ سالوں کے بعد مَیں نے کسی تعلیمی ادارے میں کلاسیں لینا شروع کر دی تھیں۔ جہاں نئے [ادبی] دوست ملے، وہاں بی۔ اے۔ والے ہم جولیوں سے بھی برابر ملاقات رہتی۔ دھیرے دھیرے میری خاموشی کو میری آواز نے شکست آمیز کیا اور مَیں اِس نئے ادبی ماحول میں ڈھل گیا۔ لیکچرز سے فارغ ہو چکنے کے بعد بستہ کمر پر لادے آزادانہ طور پر ہوسٹل تک ٹہلتا۔ 

کرونا کی چھٹیوں سے نجات ملنے کے بعد اچانک ہم سبھی ہم جماعتیوں نے پارٹی کا فیصلہ کیا۔ مَیں پہلے پہل ہچکچایا کیوں کہ مجھے کسی پارٹی کا تجربہ نہ تھا اور اندیشہ تھا کہ آدابِ پارٹی سے ناواقف ہونے کی وجہ سے مجھ سے کوئی احمقانہ حرکت سرزو نہ ہو جائے۔ دوستوں کے اصرار پر مَیں دِل مضبوط کر کے پارٹی پر جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ ہم کچھ ہی منٹوں کے بعد گورمے بیکری میں تھے۔ دِن کے وقت غالباً ایک سو پچاس کے لگ بھگ برقی قمقموں کو روشن دیکھ کر بجلی کی "قلت" بھول گئی۔ گُل فراز اور شیر آصف منتظم اعلیٰ تھے۔ آئیس کریم یا کلفے کا ایک ڈبہ ہمارے سامنے رکھ دیا گیا۔ مَیں ایک سوئے ہوئے مسافر کی طرح ڈبے میں موجود کلفے کو تکے جا رہا تھا کہ ہمارے ادبی مؤقِر نے مجھے نیند سے بیدار ہو کر پارٹی پر توجہ دینے کا کہا۔ میرا چمچہ میری طرح کھانے کے معاملے میں شرمیلا تھا تو گُل فراز نے میرے لیے آئیس کریم اور جیلی کی کان کُنی کر دی۔ 

پارٹی کا ایک منظر

گھر کی کھڑکی سے دنیا کو دیکھنا بچپن میں سحر انگیز مگر لڑکپن میں ایک چیلنج بن جاتا ہے۔ خاص کر اُس شخص کے لیے جو جسمانی توازن کے لیے اپنے پیاروں پر انحصار کرتا ہے اور جو سورج سے چمکتی دنیا کو محض پلک جھپک کر ہی اپنے دماغی کیمرے میں محفوظ کر سکتا ہے۔ 2015ء؁ سے انکھوں میں سورج سے روشن جہاں کو دیکھنا ایک کٹھن معمہ بن چکا ہے۔ چھاؤں والی عینک سے روشنی کی شدت تو کم ہو سکتی ہے مگر ایف۔ پی۔ ایس۔**** نہیں بڑھائے جا سکتے۔ عام لوگ اشخاص کو اپنی آنکھوں سے پہچانتے ہیں مگر مجھے اپنے کانوں سے پہچاننا پڑتا ہے۔ جو اتنا درست نہیں ہوتا۔ اِن سبھی حدود کے باوجود مَیں نے خواہ کچھ دنوں کے لیے ہی سہی، مگر باہر کی دنیا دیکھی ضرور ہے۔ مگر میری معاشرتی نشونما میری عمر کے ایک عام لڑکے کے مقابلے بہت کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مَیں بہت سے کاموں میں عام لڑکوں سے کوسوں میل دور ہوں اور "بھولے" لقب کو صدقِ دل سے قبول کرتا ہوں۔ 

نوٹ

1. حجاباتِ معاشرت کے پیش نظر کچھ خاندانی معلومات کو اس یاداشت کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ 

2. اِس مضمون میں میری نورنگا سکول میں تین سالہ اور کالج میں چھ ماہ کی تعمیلی زندگی کا ذکر اس لیے نہیں کیا گیا کیوں کہ اِن کے اجتماع سے تحریر کی طوالت میں اِس حد تک اضافہ ہو جائے گا کہ فیس بُک پر پوسٹ نہیں ہو پائے گی۔ لہٰذا اِس کا ذکر ایک علٰحدہ مراسلے میں کیا جائے گا۔ 

مفہوم وُ معانی

• پکی شاہ مردان کے قدرے وسطی جنوب میں واقع ساداتِ ماڑی کے گھروں کے جھرمٹ کو عرفِ عام حویلی کہا جاتا ہے۔ 

** لکڑی سے بنی کھڑکی جو کسی جگہ سے نکلنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ 

*** دروازہ

**** Frames Per Second  یہ یونٹ الیکٹرانک ڈیوائیسز کی ایک سیکنڈ میں n تصویری فریمز کو دکھانے کی صلاحیت کو اُجاگر کرتا ہے۔  

Post a Comment

It's time to pen down your opinions!

Previous Post Next Post