{tocify} $title={Table of Contents}
واٹس ایپ وہ وبا ہے، جس کا علاج فرنگی تجربہ گاہوں میں بھی دریافت نہیں کیا جا سکا۔ اکثر لوگ میرا واٹس ایپ کے متعلق "متعصبانہ" رویے پر سوال اُٹھاتے ہیں، یہ مضمون اسی سوال کے جواب کے طور پر زیبِ قرطاس کیا گیا ہے۔ بلا شبہ واٹس ایپ اس دنیا میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی برقِ پیغامیہ (Instant messaging) ایپلی کیشن ہے, تقریباً 1.5 بلین لوگوں نے واٹس ایپ اکاؤنٹس بنا رکھے ہیں اور یومیہ 60 بلین پیغامات اس پلیٹ فارم سے بھیجے جاتے ہیں۔ استعمال میں آسانی اور سستی سروس واٹس ایپ کے مشہور ہونے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ تاہم اس ایپلی کیشن کے فوائد کم، نقصانات زیادہ ہیں۔ اس کے منفی پہلو کو اجاگر کرنا ہی اس مقالے کو تحریر کرنے کا مقصد ہے۔
راز داری:
اگر آپ کا واٹس ایپ پر اکاؤنٹ کھلا ہوا ہے تو آپ کو یقیناً بہت سے گروپس میں آپ کی مرضی کے خلاف شامل کیا گیا ہو گا۔ اگر آپ رازداری کے معاملے میں سنجیدگی برتتے ہیں تو ایک بات کا علم ہونا چاہیے کہ آپ کا موبائل نمبر کسی گروپ میں عوامی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔ ہمارے معاشرے کی خواتین بھی اسی پھندے میں پھنس کر اُن گروپس کی زینت بن کر اپنا موبائل نمبر خطرے میں ڈال دیتی ہیں۔ میرے نزدیک کسی خاتون کو واٹس ایپ استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے تا کہ ان کا موبائل نمبر غلط ہاتھوں میں نہ پڑ سکے۔
لوگ کہتے ہیں کہ واٹس ایپ سے بھیجا جانے والا میڈیا حفاظت سے اپنی منزل تک پہنچ جاتا ہے۔ مگر حقیقت اس کے بر عکس ہے، اگر فیس بُک میسنجر سے بھیجا جانے والا مواد حکومت کی نظروں میں آ سکتا ہے تو واٹس ایپ سے بھیجا جانے والا مواد بھی چشمِ حکمرانی سے محفوظ نہیں۔ حکومت اور خفیہ رساں اداروں نے واٹس ایپ کی انکرپشن کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے صارفین کے ڈیٹا پر نظر رکھنے کا اختیار رکھتی ہے۔ اگر Privacy آپ کی اولین ترجیح ہے تو ٹیلی گرام ایک بہترین انتخاب ہے۔
ہیکنگ:
واٹس ایپ سے بھیجا جانے والا میڈیا آپ کے فون میں براہ راست لینڈ کرتا ہے۔ بہت سی تصاویر اور ویڈیوز اپنے اندر سپائی وئیر لیے پھرتی ہیں، جو آپ کو بنا بتلائے بغیر آپ کی خفیہ معلومات (جن میں آپ کی گھریلو تصاویر بھی شامل ہیں) کو ہیکروں تک پہنچا رہی ہیں۔ اس کی موجودہ مثال ایمزون کے سی۔ ای۔ او جیف بیزل کے فون کی ہیکنگ ہے، جو صرف واٹس ایپ سے ویڈیو بھیجنے سے سر انجام پائی گئی۔ جب بیزل جیسے شخص کا یہ حال ہو سکتا ہے تو ہمارا حال تو سمجھنے بھی قاصر ہو سکتا ہے۔ بہت سی واٹس ایپ کالز بھی ہیکنگ کا موجب بنی ہیں۔ تاہم ان لوپ ہولز کو اب بھر دیا گیا ہے۔ مگر مستقبل میں نئے نظامِ ہیکنگ اپنا جلوہ دکھا سکتے ہیں۔
تکنیکی عفریتیں:
واٹس ایپ استعمال کرنے سے فون کی میموری کا گھڑا بڑی سرعتی سے بھر جاتا ہے۔ ایک وقت میں صرف ایک ہی جگہ، ایک ہی فون پر ایک واٹس ایپ اکاؤنٹ چلایا جا سکتا ہے۔ اگر آپ صرف کمپیوٹر استعمال کرنے والے ہیں تو آپ واٹس ایپ کے لیے نہیں بنے۔ بہت سے اشخاص آپ کو بلیو سٹاکس اور اس جیسے کئی انواع اقسام کے ایمو لیٹرز استعمال کرنے کا مشورہ دیں گے۔ مگر ایسے سافٹ ویئر آپ کے اچھے خاصے سسٹم کی بتی گُل کر سکتے ہیں۔ واٹس ایپ کا نوٹی فیکیشن، You may have new messages اور ہر پیغام کے بھیجنے اور لینڈ ہونے پر پیدا ہونے والی آوازیں "شور کی آلودگی" کی راہ ہموار کرتی ہیں۔ نیز واٹس ایپ سے بھیجی جانے والی تصاویر اپنی اصلی کوالٹی کھو دیتی ہیں۔
واٹس ایپ گروپس:
اس دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا مہان واٹس ایپ یوزر ہو جسے کسی واٹس ایپ گروپ میں اس کی مرضی کے بغیر شامل نہ کیا گیا ہو۔ واٹس ایپ گروپس اپنے نام کا صرف 10 فی صد سود ادا کرتے ہیں۔ باقی ماندہ 90 فی صد اوٹ پٹانگ پیغامات، تصاویر اور ویڈیوز سے لدے ہوتے ہیں۔ کچھ گروپس تو آپ کو 1000 روپے کا بیلنس مفت مہیا کرنے کی ویب سائٹس بھی بتلاتے ہیں۔ او بھائی! وہ آپ کو سبز باغ دکھاتے ہیں!
واٹس ایپ سٹوریز:
جنھیں عرفِ عام میں واٹس ایپ اسٹیٹس کہا جاتا ہے۔ بعضے تو اپنے ہر قدم کا اسٹیٹس چپکا دیتے ہیں۔ بسا اوقات بعض من جلے 50 اسٹیٹس سے ایک ہی ہلے میں پورے محلے کو آلودہ کر دیتے ہیں۔ مجال ہے کہ کسی لمحے بھی آپ کی واٹس ایپ کے میٹھے حلوے کی پلیٹ میں اسٹیٹس کا تڑکا نہ لگا ہو۔ اسٹیٹس چاول کھانے کے بعد پی جانے والی کوکا کولا کا روپ دھار چکی ہے۔ مگر اے عزیزِ من! حد سے زیادہ کوکاکولا خورانی معدے کی بیماریوں کا بھی تحفہ لاتی ہے۔
ماحصل:
پاکستانی معاشرے میں واٹس ایپ ایک ناگزیر متوازن غذا کی خوبیاں لیے صبح کی چائے کا بسکٹ بن گئی ہے۔ زونگ نیٹ ورک کی "عمدہ مارکیٹنگ" نے آتشِ واٹس ایپ کو مزید بھڑکانے میں پیٹرول کا کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ نیٹ نیوٹرلٹی کا جنازہ نکال دیا ہے۔ مگر کبھی کبھار پیٹرول پورے گھر کو جلا ڈالتا ہے۔ کسی بھی میسجنگ ایپلی کیشن کا انتخاب کرنے وقت اس کی مشہوریت کو خاطر میں نہ لایا جائے، بلکہ اس کے تمام مثبت اور منفی پہلوؤں کا اچھی طرح اعاده کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی ضروریات کو مدِ نظر رکھنے کے بعد انتخاب عمل میں لایا جائے۔ مثلاً میرے لیے واٹس ایپ سے زیادہ فیس بُک میسنجر زیادہ موزوں ہے کیوں کہ کمپیوٹر سے نوکیا 225 تک برابر کام کرنے کے ساتھ مفت cloud based messaging سروس مہیا کرتا ہے۔
Credits for the background image: https://pixabay.com/p…/internet-whatsapp-smartphone-3113279/
Tags:
Articles